
کرسی کی سازش اور سوشل میڈیا کا علاج
تحریر: فواد پیرزادہ
آج ایک عام سا دن تھا، میں کرسی پر بیٹھنے کی معصوم سی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک وہی کرسی، جس پر میں نے ہمیشہ بھروسہ کیا، غداری کر گئی۔ نہ جانے کیسے، وہ آہستہ سے سائڈ پر ہو گئی، اور میں پورے وقار کے ساتھ زمین بوس ہو گیا۔ ایک لمحے کو تو لگا جیسے کوئی زلزلہ آیا ہو، لیکن پھر احساس ہوا کہ زلزلہ نہیں، صرف میں ہی گرا ہوں۔
جیسے ہی میں زمین پر پہنچا، میں نے ازراہِ احتیاط ایک “ہائے میری کمر!” کی صدا بلند کی تاکہ سب کو لگے کہ میں درد میں ہوں، حالانکہ اس وقت خاص تکلیف محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ مگر بھائی! سوشل میڈیا نے میری فریاد کو اتنے سنجیدہ انداز میں لے لیا کہ اب جہاں بھی نظر ڈالوں، فزیوتھراپسٹ، ہڈیوں کے ماہر، کمر درد کے ڈاکٹرز اور پتہ نہیں کیا کیا اشتہارات میرے سامنے آ رہے ہیں۔
ایسا لگ رہا ہے جیسے فیس بک اور انسٹاگرام نے مجھے وہیل چیئر پر دیکھ لیا ہو اور اب مجھے بچانے کی پوری کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ بس اب یہی باقی رہ گیا ہے کہ یوٹیوب کھولوں اور وہاں “کمر درد سے نجات کے لیے پانچ آسان ورزشیں” کی ویڈیوز میرے سامنے آ جائیں۔
یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا ہماری ہر حرکت پر نظر رکھتا ہے، مگر یہ کس حد تک ہمارے ساتھ “رشتہ داری” نبھا رہا ہے، اس کا اندازہ اکثر ایسے ہی ہوتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ اشتہارات اتنی جلدی ہماری باتوں پر ردعمل کیسے دے دیتے ہیں؟ تو جناب، اصل بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایپس اور دیگر ٹیکنالوجی کمپنیاں ہماری آن لائن سرگرمیوں کو بہت غور سے دیکھتی ہیں۔ ہم کیا سرچ کرتے ہیں، کن پوسٹس پر رکتے ہیں، کس چیز پر کلک کرتے ہیں، کہاں جاتے ہیں، کس سے بات کرتے ہیں — یہ سب ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی اگر آپ نے کسی ایپ کو مائیکروفون کی اجازت دی ہو (جیسے وائس کمانڈ یا کوئی گیم)، تو وہ آپ کی آواز کے کچھ حصے بھی سن کر سمجھ سکتی ہے کہ آپ کس چیز میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پھر وہ تمام ڈیٹا ملا کر ایک “اندازہ” لگاتے ہیں کہ آپ کو کون سا اشتہار دکھایا جائے۔
مثال کے طور پر، اگر آپ نے گوگل پر کبھی کمر درد کا علاج سرچ کیا ہو، یا کسی دوست کے ساتھ بیٹھے بیٹھے صحت کی بات کی ہو، اور فون پاس ہی رکھا ہو، تو وہ سسٹم فوراً الرٹ ہو جاتا ہے کہ “صاحب کو شاید طبی مشورے کی ضرورت ہے!”۔ اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے، وہ آپ اپنی نیوز فیڈ میں خود دیکھ لیتے ہیں۔
آپ کسی دوست سے یونہی کہہ دیں کہ نیا فون خریدنے کا سوچ رہا ہوں، اور اگلے ہی لمحے ساری دنیا کے موبائل برانڈز آپ کی اس خواہش کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں۔ آپ اگر آن لائن کسی ہوٹل کا مینو دیکھ لیں تو سارا ہفتہ آپ کو “یہ کھائیں، وہ کھائیں” کی ترغیب دی جاتی رہتی ہے، اور اگر کسی دل جلے نے فرطِ جذبات میں “ڈیپریشن کا علاج” گوگل کر لیا تو پھر وہ بے چارہ ہر جگہ زندگی کی قدر کرنے کے مشورے سنتا رہتا ہے۔
یہ معاملہ صرف اشتہارات تک محدود نہیں، بلکہ یہ ٹیکنالوجی ہماری سوچ کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ یہ ہمیں وہی دکھاتی ہے جو ہم نے ایک بار دیکھنے میں دلچسپی ظاہر کی ہو، اور یوں ہمیں لگتا ہے کہ ساری دنیا بس وہی ہے جو ہماری اسکرین پر نظر آ رہی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنے اردگرد کی حقیقی دنیا سے کٹ کر ایک ایسے ڈیجیٹل بلبلے میں قید ہو جاتے ہیں، جہاں ہمیں ہر بات ہماری پسند کے مطابق نظر آتی ہے۔
اب آپ سوچیں، یہ ڈیجیٹل بلبلہ ہمارے معاشرتی رویوں پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ ہم صرف اُن لوگوں سے جڑتے ہیں جن سے ہماری سوچ ملتی ہے، اور الگ رائے رکھنے والے اکثر ہماری نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہماری سوچ محدود اور ایک طرفہ ہو جاتی ہے۔ اس سے جمہوریت، بات چیت اور آگہی پر اثر پڑتا ہے کیونکہ ہم حقائق کی بجائے اپنی پسند کی باتیں سننے لگتے ہیں۔
یہاں تک کہ ہماری ذاتی معلومات کی حفاظت بھی خطرے میں آ جاتی ہے۔ بہت سی کمپنیاں ہماری روزمرہ کی زندگی کے بارے میں جتنا زیادہ جانتی ہیں، اتنا زیادہ وہ ہمیں ہدف بنا کر اشتہارات دکھا سکتی ہیں، لیکن یہ ڈیٹا اگر غلط ہاتھوں میں چلا جائے تو ہماری پرائیویسی کو بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ڈیجیٹل حقوق کے بارے میں آگاہ ہوں اور احتیاط برتیں کہ کس ایپ کو کونسی اجازت دیتے ہیں۔
دوسری طرف، اس ڈیٹا کے ذریعے ہمیں فائدے بھی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کو کوئی خاص بیماری ہو اور آپ نے اس بارے میں سرچ کیا ہو، تو اس کے مطابق آپ کو متعلقہ معلومات اور مدد مل سکتی ہے۔ یا اگر آپ کاروبار کرتے ہیں، تو اپنی مرضی کے مطابق گاہکوں تک پہنچنے کے لیے یہ اشتہارات مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اصل چال یہ ہے کہ ہم اپنے ڈیٹا کے استعمال کو سمجھیں اور ذمہ داری کے ساتھ اپنی معلومات کا تحفظ کریں۔
تو صاحبو! کرسی سے گرنے کا دکھ تو برداشت ہو گیا، مگر یہ احساس زیادہ تکلیف دہ ہے کہ ہماری زندگی اب ایک کھلی کتاب ہے جسے پڑھنے والے بہت زیادہ اور سمجھنے والے بہت کم ہیں۔ بس دعا یہی ہے کہ کہیں مستقبل میں ایسا نہ ہو کہ ہم دل کی بات صرف دل میں رکھنے پر مجبور ہو جائیں، ورنہ اگلی بار اگر کسی نے نیند میں بڑبڑا دیا کہ “یار، بہت تھکاوٹ ہو رہی ہے” تو ہو سکتا ہے کہ صبح اٹھتے ہی اس کے دروازے پر ایک مالش کرنے والا کھڑا ہو، جو کہے، “صاحب! آپ کی سوشل میڈیا سرگرمیوں نے ہمیں آپ تک پہنچا دیا ہے!”
Fawad Pirzada explores observations from everyday life and beyond, sharing his opinions and perspectives.